دل_ضد_کر_بیٹھا
وہ موت بڑی سہانی ہو گی
جو یاروں کی یاری میں آنی ہوگی
اے خدا
ہمیں سب سے پہلے بلانا
یاروں کے لٸے جنت بھی توسجانی ہو گی
حدید سر ہاتھوں پر گراۓ بیٹھا تھا اس کا دھیان بٹ رہا تھا اس نے سامنے پڑے واز کو دیکھا راسم کا دیا ایک ایک گفٹ اس نے ہمیشہ سینے سے لگا کر رکھا تھا دوست پلس بھاٸی کے دیے گٸے گفٹس ہمیشہ ایک خاص جگہ گھیرتے ہیں ۔
”راسم یار تو مجھے ناں لڑکی لگتی ہے ،،،“
حدید نے اسے گھورا ۔
”کیا کیا ہے اب میں نے لپ اسٹک لگاٸی ہے یا ہیل پہن لی ہے ،،،،،،،، یا لہنگا لے آیا اپنے لٸے۔۔“
راسم نے موبائل سے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
”تُو بلو شرٹس کیوں لایا دونوں ،،،،، مطلب غلطی ہو گٸ جو تجھ پر رومیسہ پر بھروسہ کیا وہ میڈم پنک لے آٸی ہیں ،،،، قسم سے گدھا ہے تو ۔۔“
حدید صوفے پر بیٹھتے ہوۓ تپا ہوا بولا۔
”قسم سے میں گدھا نہيں انسان ہوں اور تو بتا یار تجھے کیوں شک ہوا کہ میں لڑکی ہوں ۔۔۔۔“
راسم نے صفائی دے کر کہا۔
”کیونکہ تجھے لڑکیوں کی طرح بلو کلر پسند ہے مرد تو کالے اور سفید کو ترجيح دیتے ۔۔۔۔“
حدید نے طنز مارا ۔۔
”اوہ کمینے ،،، یہ کالا سفید سوگی پہنتے جو شادی شدہ ہوتے ۔۔۔۔ ہم کنوارے ہیں ابھی۔۔۔۔“
اس نے صدمے سے کہا ۔۔۔
”میری شرٹ چینج کرا کے لا نہيں تو تجھے کچا چبا جاٶں گا میں بتا رہا ہوں ۔۔۔۔“
حدید نے اسے دیکھ کر دانت پیسے۔۔
”میری جان کچا چبا یا فراٸی کر کے کھا میں نہيں جا رہا ،،، مجھ معصوم پر ظلم ہی ظلم “
راسم بھی اسی کا بھاٸی تھا کہاں باز آنے والا تھا۔
” تو مجھے ایسے گھور مت ،،، میں پریس کانفرنس کر دینی کہ مجھ پر میرا جڑواں دشمن ظلم کرتا ہے۔۔“
راسم نے منہ بنا کر اسے دیکھا۔۔
”کمینہ بے شرم بھاڑ میں جا ۔۔۔۔“
حدید نے غصے سے گھورا اور شرٹس اٹھا کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔
”اب ریڈ ہو گٸیں کیا ؟“ راسم ہنسا ۔
”تو نے ضاٸع ہونا ہے ناں شاید میرے ہاتھوں۔۔۔“
حدید ڈریسنگ روم سے ہی بولا۔۔
”حدید دیکھنا اک دن تجھے اس بلو رنگ سے عشق ہو جاۓ گا تیرا سارا روم بلو رنگ سے ڈیکوریٹڈ ہو گا اور تجھے راسم یاد آیا کرے گا۔۔۔۔۔“
راسم نے جانے کیا سوچ کر کہا تھا ، قبولیت کی گھڑی تھی دعا قبول ہو چکی تھی ۔۔۔
”راسم اگر اب تُو بولا میں نے سانس پی جانی ہے تیری ۔۔۔ جان کھا گیا ہے میری۔۔۔“
حدید نے اس کا موبائل بیڈ پر پھینکا ۔
”بہت بری لگتی ہیں ناں میری باتيں دیکھنا
ایک دن رلا دے گی تمہيں خاموشی میری“
راسم کہہ کر موبائل اٹھا کر بھاگ گیا ۔۔
”واقعی تمہاری خاموشی نے تو اس دن مجھے رلا ہی دیا تھا بلکہ میری روح کو جھنجھوڑ ڈالا ۔۔۔۔“ حدید نے ایک نظر اس کمرے پر ڈالی سب کچھ بلو تھا۔
وہ اٹھ کر ڈریسنگ روم میں آیا ایک ڈرا کو ان لا ک کیا اور کانپتے ہاتهوں سے بلو شرٹ اٹھاٸی جو خون میں لت پت تھی کٸ جگہوں سے پھٹی تھی ۔۔
”کتنا درد ہوا ہو گا اسے ،،،،، کس کس کو پکارا ہو گا اس نے کتنا رو رہا ہو گا ۔۔۔۔“
حدید کی آنکهوں سے آنسو نکلنے کو بے تاب ہو رہے تھے وہ آہستگی سے نیچے بیٹھ گیا ۔۔
”رومیسہ وہ غصے میں چلا گیا اور تم نے روکا بھی نہيں اسے یار وہ گدھا بہت ریش ڈرائيونگ کرے گا ۔۔۔ او ماٸی گاڈ ۔۔۔۔“
وہ موبائل سے مسلسل اسے کال کر رہا تھا ۔۔
”میں بھی جاتا ہوں ۔۔۔“
حدید جانے لگا وہ اس کے غصے سے واقف تھا۔
”نہيں حدید اسے جانے دو،، اللہ خیر کرے گا اور ماما کو لانا بھی ضروری ہے ۔۔۔“
رومیسہ نے اسے جاتے دیکھا تو فوراً بولی۔
”نہيں میں جا رہا ہوں۔۔۔۔میرا دل گھبرا رہا ہے،،،،،“
وہ باہر گاڑی کی طرف آیا ابھی گاڑی اسٹارٹ کی ہی تھی کہ کسی رونگ نمبر سے کال آٸی حدید نے ایک نظر دیکھا اور پھر کوفت سے کال پک کی ۔۔
”آپ کون؟؟ “
دوسری طرف سے ایک مردانہ آواز ابھری ۔۔
”آپ کے دادا جان ۔۔۔۔۔“
اس نے غصے سے کہا ۔۔
”سر دھیان سے میری بات سنیں میں ہوسپٹل سے بات کر رہا ہوں کسی راسم کا بہت بیڈلی ایکسیڈنٹ ہوا ہے،،،،،،،، اور آخری ڈاٸیل نمبر آپ کا ہی تھا سو کال کی ۔۔۔۔“
اگلا بندہ اطمينان سے بولا۔۔
”ک۔ ک۔ کیا ؟؟؟۔۔۔ کی۔ کیسا ہے و۔وہ“
حدید نے سر پر ہاتھ رکھ کر ڈر سے پوچھا ۔
”آٸم سوری ہی از نو مور ۔۔۔۔“
دوسری طرف سے الفاظ نہيں بم پھوڑا گیا حدید نے ساکت نظروں سے موبائل کو دیکھا تھا اور ہمت کر کے گاڑی سے نکلا اس کا دماغ ماٶف ہو رہا تھا وہ گاڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر نیچے بیٹھ گیا ۔۔رومیسہ جو لان میں راسم کو مسلسل کال کر رہی تھی تیزی سے بھاگتی ہوٸی اس کے پاس آ کر بیٹھ گٸ ۔۔
”حدید کیا ہوا ہے ؟؟؟؟؟“
وہ جانے کس احساس کے تحت رو دی حدید نے خالی نظروں سے اسے دیکھا ۔۔
”بتاٶ ناں راسم ٹھیک ہے ؟؟؟ بولو ناں پلیززز“
وہ اس کا چہرہ ہاتهوں میں لے کر گڑگڑاٸی۔۔
”رومیسہ مر مر گیا ہے وہ مر گیا راسم مر گیا مار دیا ظالموں نے ۔۔۔۔ وہ مر گیا ۔۔۔۔“ حدید چھوٹے بچوں کی طرح ایڑیاں رگڑتے ہوۓ چلایا تھا رومیسہ دو قدم اٹھ کر خوف سے نفی میں سر ہلاتی دور ہوٸی ۔
”یہ بکواس ہے ،،، یہ نہيں ہو سکتا نہيں وہ وہ نہيں مر سکتا وہ مر ہی نہيں سکتا میں کہہ رہی ہوں مذاق نہ کرو نہ کرو میں مر جاٶں گی ۔۔۔“
رومیسہ گلا پھاڑ پھاڑ کر چلائی ۔
”یہ جھوٹ نہيں ہے ۔۔۔وہ چلا گیا ہے ۔۔“
حدید کی فلک شگاف چیخیں بلند ہوٸی رومیسہ گھٹنوں کے بل کھلے آسمان کے نیچے بیٹھی چلا رہی تھی سب ملازم دونوں کو حیرانی سے دیکھنے لگے ۔
”اٹھو بیٹا جاٶ اپنے بابا کو بتاٶ اس کی ڈیڈ باڈی بھی تو لانی ہے “
ان کے گھر کی ایک ملازمہ روتے ہوۓ بولی ۔
”نہيں جا سکتا وہ ،،،،، “
حدید چلایا تھا جس جس کو پتہ چلا وہی چلایا تھا
اس کی ڈیڈ باڈی آٸی تو رومیسہ بھاگتی ہوٸی پہنچی
”راسم میرے بھاٸی آنکهيں کھولو ،،،، دیکهو ناں سب رو رہے ہیں پلیز نہ کرو یہ سب ،،،ماما آ گٸ ہیں اب یہ پرینک نہ کھیلو،،،،، پلیزززز۔۔۔۔۔“
وہ اس کی میت پر جھکی رو رہی تھی درد کی وہ انتہا یہ تھی آنکهوں سے آنسو خشک ہو چکے تھے۔
حدید اس کے چہرے کو یک ٹک دیکھ رہا تھا سعدیہ بیگم تو بس سکتے میں تھیں یہی حال سعید صاحب کا تھا جب کہ وانیہ خاموشی سے آنسو بہا رہی تھی اس کی کل دنیا اس کے خوابوں کا شہزادہ تھا وہ ،،، ارحم بھی بے تحاشا رو رہا تھا۔
”راسم بس کر دے ناں یار اٹھ جا ،،،، پلیزززز یار“
حدید روتے ہوۓ بولا تھا اس کی حالت پاگلوں کی سی ہو رہی تھی وہ اس کا بھاٸی نہيں جان بھی تھا
سب سے مشکل لمحہ وہ آیا تھا جب راسم کو اس گھر سے لے کر جانا تھا رومیسہ اسمارہ تو جنازہ لے کر ہی نہيں جانے دے رہی تھی وہ بے یقین تھیں کہ ان کا لاڈلا بھاٸی جا چکا ہے ابدی سفر پر۔
”حدید اس کی قبر پر مٹی ڈالو ۔۔۔۔“
ارحم نے اسے کہا تو اس نے نفی میں سر ہلایا ۔
”ڈالو یہ ضروری ہے ،،،، پلیز چاہے ایک مٹھی ہی سہی“
ارحم اسے قبر کے پاس لایا یہاں ان دونوں کا یار ابدی نیند سو گیا تھا ،،،حدید گھٹنوں کے بل روتے ہوۓ بیٹھ گیا اور مٹی ڈالنے لگا اور سر اس گیلی مٹی پر رکھ دیا جیسے کہ وہ راسم کے گلے لگا ہو ۔
وہاں موجود ایک ایک بندہ رو دیا تھا اسکے درد پر
”بھاٸی اٹھیں زیادہ نہيں روتے گناہ ہوتا ہے ۔۔۔“
رضی نے اپنے آنسو پونچھتے ہوۓ کہا ۔
”وہ چلا گیا وہ اتنی جلدی کیوں گیا ابھی تو ہزاروں سال جینے تھے ہم نے ابھی تو پل پل کو حسین بنانا تھا ،،،، ابھی تو ایک دوسرے کو دولہا بنا دیکھنا تھا ۔۔“وہ ننھے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔
یہ تھا وہ دن جس نے ایک ہنستے مسکراتے شخص کو توڑ دیا اسے زندگی سے دور کر دیا اسے سب اپنوں سے دور کر دیا اسے جینے کی چاہ نہ رہی وہ ایسے جی رہا ہو کہ جیسے بس سانسوں کے رکنے کے انتظار کر رہا ہو اسے سکون نہيں ملتا تھا راسم کی جداٸی اسے اللہ سے قریب ترین کر گٸ وہ ہر نماز مسجد میں پڑھنے لگا روز اس کی قبر پر جانے لگا پھر جب اس نے پری کو دیکھا اسے لگا کہ اللہ نے جینے کی وجہ دے ڈالی ہو وہ اسے حاصل کرنا چاہتا تھا اسے ڈر تھا کہ کہیں راسم کو جیسے روکنے میں دیری کی اور مل نہ پایا شاید وہ بھی نہ مل پاۓ وہ اسے پانا چاہتا تھا اسے لگ رہا تھا وہ نہ ملی تو جیسے سب رک جاۓ گا غصے سے سہی طاقت پر زور ہی سہی وہ اسے حاصل کرنا چاہتا تھا مگر وہ اس پر عزت پر کوٸی انگلی برداشت نہيں کر سکتا سو اس نے ایک نیا طریقہ اپنایا ،،، وہ اسے پا کر خوش تھا مگر وہ مسکرا پھر بھی نہ سکا اسے لگا کہ جیسے اس کی مسکراہٹ اپنے ساتھ دفنا چکا ہو ،،،، پری کی سنگت اسے بدلنے لگی وہ گھر سب کے ساتھ کھانا کھا لیتا ارحم رومیسہ ساتھ مذاق کر لیتا اور آج پری کے الفاظ نے گویا ایک پتھر کو موم کر دیا ہو ۔۔۔وہ ابھی تک نیچے بیٹھا رو رہا تھا ۔۔۔
”اب میں ماما بابا کو مناٶں گا ہم پھر سے وہی زندگی جیٸیں گے بس تمہاری کمی ہو گی مگر اب تمہيں روتے ہوۓ نہيں بلکہ اچھے الفاظ میں یاد رکھوں گا کیونکہ مجھے پتہ ان سات سالوں میں بہت تکليف دی تمہيں ماما بابا اسمی کو ہرٹ کر کے آٸم سو سوری۔۔۔“
حدید نے واش روم جا کر منہ دھویا ................
“خوش مزاجی بھی مشہور تھی ہماری
سادگی بھی کمال ہے،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ہم شرارتی بھی انتہا کے تھے
اور اب،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
سنجیدہ بھی بے مثال ہیں،،،،،،،،،،،،،
،،،،،،،،
”بھاٸی صاحب مجھے بات کرنی تھی آپ سے۔۔۔۔۔۔“
فرزانہ بیگم نے وحید صاحب کو دیکھا۔۔۔۔
ّہاں بولو۔۔۔۔۔“ انہوں نے دیکھا اس وقت سب چاۓ پینے میں مصروف تھے ۔۔
”بھاٸی آپ نے حدید کو معاف کیوں نہيں کیا اب تک،
کیا آپ چاہتے ہیں تاریخ ایک بار پھر سے دہراٸی جاۓ ۔۔۔ مجھے لگتا اب معافی کے سوا کوٸی چارہ نہيں “
فرزانہ بیگم نے کہا وحید صاحب اور فیضی ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراۓ تھے۔۔
”اللہ نہ کرے کہ تاریخ دہراٸی جاۓ ،،،،، اور حدید کو تو میں معاف کر چکا ہوں ۔۔۔۔۔“
وحید صاحب مسکراۓ ۔۔
”سچ بابا جان۔۔۔۔۔“ پریزے کے چہرے پر رونق آٸی۔۔
”جی میرا بچہ ۔۔۔۔“ وہ مسکراۓ ۔
”تھینکس بابا اور ہم آپی سے ملنے کب جاٸیں گے ۔۔۔۔“
پریزے نے مسکرا کر خوشی سے پوچھا ۔
”میرا بیٹا ہم نہيں جاٸیں گے بلکہ آپی آۓ گی جلد۔۔“
وہ بھی بیٹی کے واپس آنے پر بہت خوش ہو گٸے تھے
”یا اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے میری سن لی “
نادیہ بیگم نے نم آنکھوں سے شکر ادا کیا اس خبر کے بعد سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گٸ تھی۔۔
کسے ممکن ہے کہ بھول جاۓ تمہيں
کوٸی قصہ نہيں زندگی کا حصہ ہو تم
،،،،،،،،
سماویہ صوفے پر بیٹھی کسی گہری سوچ میں گم تھی۔
”کیا ہوا ہے،،، میں دیکھ رہا ہوں جب سے پری کے آنے کا پتہ لگا ہے تم کافی پریشان ہو گٸ ہو ۔۔۔“
فیضی نے اس کے پاس بیٹھتے ہوۓ دیکھا۔
”ایسی بات نہيں ہے ،،، وہ بس یونہی ۔۔۔“
وہ مسکرانے کی کوشش کرنے لگی ۔۔
”کتنی عجیب ہو ناں تم لڑکیاں یار ،،،، کل اسے واپس اس گھر لانے کا سوچ رہی تھی اور اب ۔۔۔۔“
فیضی نے تاسف سے نفی میں سر ہلایا ۔
”ایسی بات نہيں ہے قسم سے اس کے آنے پر آٸم ویری ہیپی کہ وہ واپس آ جاۓ گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
وہ فوراً بولی تھی۔۔
”ہوں تو پھر کس چیز کا ڈر ہے کہ کہیں شوہر پلٹ جاۓ گا اپنی ایکس فیانسی کی طرف۔۔۔۔۔۔“
فیضی کو جانے کیوں ایک دم غصہ آیا تھا۔
“نہيں فیضی آٸی ٹرسٹ یو ،،،،، ایسا کچھ نہيں ہے۔۔۔“
وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپ کر بولی۔
”صرف کہتی ہو تم،، میں نے تمہيں کتنی بار بتایا ہے کہ میں نے اور پری نے کبھی بھی فیانسی والی لاٸف نہيں گزاری ، ہم لوگ دوستوں کزنز کی طرح رہے کیا ان چار پانچ مہینوں میں میری محبت میں کمی کوٸی کھوٹ دیکھا،،،،،،،، میں نے تو قسم سے تم سے رشتہ جوڑنے کے بعد پری کو سوچا بھی نہيں ،،،،،، ہاں یہ ضرور سوچا کہ اسے واپس کیسے لاٶں ،،،، سماویہ اگر مجھ پر یقین نہيں کرو گی ناں تو یہ لاٸف بہت مشکل ہو جاۓ گی ۔۔۔۔ اور خود پر شک کرنے کی اجازت میں کسی کو نہيں دیتا سو کل پری لوٹے گی تو ہم نے ویسے ہی رہنا جیسے پہلے تھے اور اگر تم نے مجھ پر کبھی بھی شک کیا ناں تو بہت بری سزا بھگتو گی اپنا نام چھین لوں گا تم سے۔۔۔۔۔“
فیضی کا لہجہ آج بہت سخت تھا ۔۔۔اسے غصہ کیوں نہ آتا وہ اپنی لاٸف پارٹنر کے لٸے کیا کچھ نہ کرتا رہا اور وہ ہی اسے بے یقينی سے دیکھے۔
”فیضی ۔۔۔۔۔“ وہ شوکڈ ہوٸی۔
”محترمہ یاد رکھنا اگر تمہاری ان آنکهوں میں میرے لٸے کبھی بھی بے یقینی آٸی ناں تو تمہارے کہنے سے پہلے ہی دیکھ لوں گا اور بہت برا ہو گا کیونکہ میری ساری محبت صرف جاٸز رشتے کے لٸے ہے۔۔۔ میں پری سے بہت محبت کرتا ہوں مگر میں تم سے بھی بہت محبت کرتا ہوں اور فرق پتہ کیا ہے کہ اس سے محبت ایک کزن ایک دوست کی ہے جب کہ تم سے جیون ساتھی کی ہے جو ہر لمحے کے ساتھ ساتھ بڑھے ہی گی ۔۔۔۔ کیا تمہيں ایک لمحے کو بھی شوک نہيں لگا کہ جو انسان گھر لوٹتے ہی تم نظر نہ آٶ تو پوچھتا کہ کہاں ہے تم اسی پر شک کر رہی ہو ،،، یو رٸیلی ہرٹ می۔۔۔۔۔۔۔۔“
اس نے دکھ سے کہا سماویہ کی آنکهيں برس رہی تھی
”آٸم سو سوری،،،، میں نے شک نہيں کیا بس ایک ڈر سا لگا لیکن آٸی پرومس آٸندہ کبھی ایسا نہيں ہو گا کبھی بھی نہيں ،،،،،،سوری ۔۔۔۔۔“
وہ اس کا ہاتھ تھام کر رو دی ۔۔
”اور یہ لاسٹ وارننگ تھی ۔۔۔۔۔“
فیضی نے اسے دیکھا ۔
”ٹھیک ہے اگر میں نے کبھی بھی شک کیا تو آپ جو سزا دیں گے مجھے قبول ہو گی ۔۔۔“
وہ فوراً اسے دیکھتے ہوۓ بولی
”اب بس کرو ڈرامہ کوٸین ،،،، جاٶ سو جاٶ شاباش سحری کے لٸے اٹھنا ہے ۔۔۔۔۔“
فیضی نے اس کے آنسو پونچھ کر کہا ۔
”آپ ناراض تو نہيں ہیں ناں۔۔۔۔“
اُس نے آہستگی سے پلکوں کو جنبش دی۔۔
”نہيں بلکل نہيں ،، تم سے ناراض نہيں رہ سکتا یار،،، بس تھوڑا ایموشنل ہو گیا تھا ۔۔۔۔“
وہ اس کا ہاتھ تھام کر دھیما سا مسکرایا ........
”تھینک یو سو مچ ۔۔۔۔۔۔“
وہ دل سے مسکراٸی اچھا شوہر قسمت والوں کو ملتا ہے جو جیون کو ٰخوشگوار بنا دیتا ہے ۔۔
”یہ آنکهيں اب ایسے ہی خوشی سے مسکرانی چاہیے۔۔“
وہ بھی مسکرایا تھا تو سماویہ نے گہرا سانس لیا۔۔
میں تیرے سوا کسی کو دو پل نہ دوں
اور تُو پورے دل کی بات کرتی ہے ۔۔۔۔
،،،،،،،،،،
وہم سے بھی ختم ہو جاتے ہیں رشتے
قصور ہر بار غلطيوں کا نہيں ہوا کرتا
سعید صاحب تین چار دن بعد ہوسپٹل سے گھر آ گٸے
حدید نے آج سب کے ساتھ روزہ افطار کیا آج وہ بے چین چین سا تھا رومیسہ اور ارحم بھی آ گٸے تھے ۔۔
”کیا ہوا ؟؟؟“
پری نے اسے دیکھا جو کمرے میں بے چینی سے ٹہل رہا تھا کیونکہ ماما بابا کے پاس جانا چاہتا مگر عجیب سا لگ رہا تھا کیونکہ سات سال ہو چکے تھے ۔۔۔
”نتھنگ ،،،، پریشے تھینکس یار ،،،،“
حدید نے رک کر اسے دیکھا تھا۔۔
”کیوں ؟؟؟؟؟؟“
پری نے اسے نا سمجھی سے دیکھا ۔۔۔۔
”میری دماغ پر لگی گرہیں کھولنے کے لٸے ،،، شاید تم ناں سمجھاتی تو میں کبھی سمجھ نہ پاتا ۔۔“
وہ گہرا سانس لے کر بولا۔
”تھینکس کی ضرورت نہيں ہے،،،، میرے لٸے باعثِ خوشی ہے کہ تم اور تمہاری فیملی مل جاٶ گے۔۔۔۔۔“
وہ ایک اداس سی مسکراہٹ سے بولی تھی حدید نے اس کی اداسی کو دیکھ کر گہرا سانس لیا ۔
”میں ماما بابا کے پاس جا رہا ہوں ،،،،،، تم بھی چلو؟؟“
حدید نے اسے دیکھا ۔۔۔
”میں جا رہی تھی ویسے بھی ،،،،، “
وہ چاۓ کا کپ اٹھا کر چلی گٸ ۔۔۔۔۔۔
چراٶ نظریں، چھڑاٶ دامن، بدل کر رستہ، بڑھاٶ الجھن
تمہيں جو دعاٶں سے پھر بھی میں نے پا لیا تو کیا کرو گی
،،،،،،،،
سب بابا کے روم میں بیٹھے تھے پری اور حدید بھی وہاں ہی آ گٸے ۔۔ سب نے حیرانی سے حدید کو دیکھا کیونکہ وہ تو راسم کی زندگی میں ہی آیا تھا اس روم۔
”آٶ بیٹا ۔۔۔۔۔“ سعدیہ بیگم خوشی سے بولی حدید چلتا ہوا ان کے پاس آیا اور گھٹنوں کے بل بیڈ کے پاس نیچے بیٹھ گیا اور ہاتھ ان کے پاٶں پر رکھ دیے سعدیہ بیگم تو کیا سب نے از حد حیرانی سے اسے دیکھا۔
”بیٹا اوپر بیٹھو ۔۔۔اٹھو شاباش“
سعدیہ بیگم نے نفی میں سر ہلاتے پاٶں پیچھے کیا
”جتنا نیچے گر گیا تھا اس سے تو اوپر ہی ہوں۔۔۔“
اس کی آواز میں درد اور شدید غم تھا۔
”نہيں بیٹا ۔۔۔۔“ انہوں نے آنسو پیچھے دھکیلے ۔۔
”ماما بابا آج مجھے غور سے سنیے گا پلیز ۔۔۔“
اس کی آنکهوں میں آنسو آنے لگے ۔۔
”ماما بہت بہت غلط کیا ہے ہے میں نے پاگل ہو گیا تھا اصل میں راسم کی عادت اتنی تھی ناں کہ جو سمجھ آیا اس ٹائم وہی کرتا رہا ،،،، مجھے سکون نہيں مل رہا تھا مجھے معاف کر دیں میری غلطيوں اور گناہوں کی لسٹ بہت لمبی ہے پلیز معاف کر دیں ۔۔۔۔“
وہ ان کے پاٶں پر سر رکھ کر رو دیا تھا سب کے لٸے یہ غیر متوقع تھا،،،، سب نے ازحد حیرانی سے دیکھا
رومیسہ اور ارحم جہاں ہیپی ہوۓ وہاں رو بھی پڑے
”نہيں میرے بچے تم صحیح تھے ۔۔۔۔“
انہوں نے روتے ہوۓ اس کے سر پر بوسہ دیا حدید ان کو ساتھ لگا کر رو دیا تھا آج پہلی بار ماں کے سینے سے لگ کر وہ راسم کے لٸے رویا تھا،،،،،،،،،،،،،،،،
”بابا نو ورڈز ۔۔۔۔۔۔“ وہ ان کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوۓ بولا تھا بابا نے بھی بنا کچھ کہے اسے سینے سے لگا لیا لیا کمرے میں موجود سارے نفوس رو رہے تھے۔
پھر وہ اسمارہ کی طرف آیا جس کے آنسو فرش پر گر رہے تھے حدید نے کرب سے آنکهيں میچ کر کھولیں۔
”صرف میری ایک فضول انا کی وجہ سے کتنے حسین پل ضائع ہو گٸے یار،،،،،، قصور وار تم بھی تھی ضد کرنا کیوں چھوڑ گٸ کبھی آ کر گریبان نہيں پکڑا کہ بھاٸی راسم تو مر گیا حدید کیوں چھین رہے ہو ۔۔
اسمارہ یار معاف کر دو وعدہ کرتا ہوں کہ کبھی بھی تم سے تمہارا بھاٸی نہيں چھینوں گا بلکہ راسم کی کمی بھی کسی کو محسوس نہيں کرنے دوں گا ۔۔۔“
وہ اس کے آنسو پونچھتے ہوۓ بولا خود اپنے آنسو بھی نکل رہے تھے بھاٸی تھا بہن کے آنسو دکھ دے رہے تھے ،،، اسمارہ روتے ہوۓ سینے سے آن لگی دونوں بہن بھاٸی رو دٸیے تھے ۔.........
ہمیشہ نہيں رہتے چہرے نقابوں میں
سبھی کردار کھلتے ہیں کہانی ختم پر
”تھینکس پری۔۔۔۔سب تمہاری وجہ سے ممکن ہوا۔“
رومیسہ اپنے آنسو پونچھ کر اس کے گلے لگی ۔۔
”اٹس اوکے ،،،، ماٸی پلیٸیر۔۔۔۔۔“
وہ دھیمی سی مسکراٸی ۔۔۔
”آٸی وش آج تم یہاں ہوتے ۔۔۔۔۔“
حدید نے گہرا سانس لیا اس کے بعد ارحم اور رومسیہ رومسیہ کے گلے لگا ۔۔
”بہت رو لیا ہم نے ماں اب اور نہيں ،،،،، میں تسلیم کر چکا ہوں کہ یہ سب قسمت میں تھا اور پتہ ہے ناں راسم،،،،،، راسم کو بہت شوق تھا کہ ہم لوگ ایک ہیپیٸسٹ فیملی کی طرح رہیں میں ری یونین چاہتا ہوں اب تو پوسبل ہے ناں ،،،، اگر آپ پہلے والا حدید چاہتے ہیں تو مجھے بھی پہلی فیملی لوٹاٸیں ۔۔۔“
اس نے دونوں کو دیکھتے گہرا سانس لیا۔
”اب سب ٹھیک ہو جاۓ گا ۔۔۔۔“
سعدیہ بیگم نے مسکرا کر اس کے ہاتهوں پر بوسہ دیا
”ایکسکیوز می۔۔۔۔“
پری جانے لگی تو اس نے چونک کر دیکھا۔
”پری بیٹا بیٹھو ناں ۔۔۔۔“
سعدیہ بیگم نے اسے جاتے دیکھ کر کہا ۔۔
”نہيں آنٹی آپ سب بیٹھٸے میں تراویح پڑھ لوں ۔۔۔“
وہ مسکرا کر کہتے ہوۓ چلی گٸ ۔۔
”حدید اب اسے بھی لوٹا دو فیملی اس کی ۔۔۔۔اسی شرط پر تمہارا ساتھ دیا تھا ۔۔۔“
ارحم نے اسے دیکھا تو اس نے ہاں میں سر ہلایا۔۔
”ماما بابا کو ساری حقیقت بتا دوں پھر یہی کچھ کریں گے کیونکہ اب سب ان کے ہاتھ میں ہے۔۔۔۔“
اس نے گہرا سانس لے کر ماما کے مقابل بیٹھتے ہوۓ کہا
”کیسی حقیقت ؟؟؟؟؟“
سعدیہ بیگم نے اسے دیکھا ۔۔۔
”ماما جان پری آپ کی بہو نہيں ہے ۔۔۔۔“
اس نے انہيں دیکھ کر آہستگی سے کہا۔
”کیا مطلب بہو نہيں ہے ،،،،، کیا وہ تمہاری واٸف نہيں ہے تو کیوں رہ رہی ہے تمہارے ساتھ۔۔۔“
انہيں تو شاک لگا تھا حدید کی بات سن کر۔۔
”اووووووووووہ ماما ماما کول ڈاٶن ،،،،، شی از ماٸی واٸف میرا مطلب تھا کہ اس کا میرے علاوہ بھی آپ سے ایک رشتہ ہے ۔۔۔۔۔“
حدید نے محبت سے اس کا ذکر کیا۔
”کیسا رشتہ ؟“
انہوں نے الجھ کر اسے دیکھا۔۔
”ماما آپ مجھے نادیہ خالہ اور اپنی کہانی سناٸیں۔۔“
حدید نے ان کو دیکھا۔
”تمہيں نادیہ کے بارے میں کیسے معلوم ۔۔۔؟“
انہوں نے چونک کر دیکها ۔
”آپ کی ڈائری سے پڑھا تھا وہاں آپکی اور خالہ کی پکچرز پکچرز بھی تھی۔۔۔۔“
اس نے سچائی سے کہا۔
”بیٹا میں اور نادیہ ماما بابا کی بہت لاڈلی چلبلی سی لڑکیاں تھیں ،،،، بے حد محبت تھی آپس میں جیسے تمہارے اور راسم کے درمیان تھی ۔۔۔ بابا ہمارے ننھیال والوں کو پسند نہيں کرتے تھے لیکن مامو چاہتے تھے کہ نادیہ کی شادی وحيد سے ہو اور بابا نے انکار کیا بٹ ماما کی ضد پر شاد ہو گٸ اور بابا نے ہر رشتہ ختم کر دیا بہت کوشش کی بٹ بابا نے ہر رستہ بند کر دیا اور دوسرے شہر شفٹ ہو گٸے بابا میں انا بہت تھی سو کچھ ٹائم بعد مامو لوگ بھی شفٹ کر گٸے بہت ڈھونڈا میں نے اسے مگر قسمت کو منظور نہيں ہوا کبھی ۔۔۔۔۔ اب تو عادت ہو گٸ ہے۔۔۔۔“
ان کی آنکهوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔
”ماما بس بہت روۓ ہم،،،،، قسمت کی دیوی مہربان ہو چکی ہے ،،،، نادیہ خالہ کہاں کہاں ہے مجھے پتہ ہے“
وہ ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹا کتنے عرصے بعد سکون ملا تھا اسے ماں کی آغوش میں ۔۔۔
”کہاں ہے؟؟“
انہوں نے ازحد حیرانی سے اسے دیکھا ۔
”یہ جو نک چڑی بہو نہيں آپ کی اس کی ماما میری خالہ ہیں نادیہ وحید ۔۔۔۔“
اس نے اطمینان سے کہا ۔
”تم سچ کہہ رہے ہو۔۔۔۔۔۔“
وہ بے یقینی سے بولیں ۔۔
”جی ماما جی ،،،،، اللہ کے ہر کام میں کوٸی نہ کوٸی مصلحت ہوتی ہے ،،،، ماما میں جس دن کوٸٹہ گیا مجھے پری سے محبت ہوگٸ میں نے اسے پانے کے لٸے جب ضد کی تو نادیہ خالہ بھی آ گٸ اور انہيں دیکھ کر کر ہزار وولٹ کا کرنٹ لگا ارحم تمہيں یاد ہے میں ان ان کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا انہيں سب بتانے لگا تھا مگر سوچا پہلے پری کو بتاٶں لیکن جب روم میں گیا پری کے لٸے محبت ہھر جاگ گٸ سوچا اس سے شادی کر کے سب حقيقت بتا دوں گا مگر بتاتے بھی آج کافی مہینے ہو گٸے اب آپ کوٸٹہ جاٸیں کیونکہ معافی میں مانگ چکا ہوں مگر یہ نہيں بتایا کہ کون ہوں میں نے ۔۔۔۔۔“
وی دھیرے دھیرے بولتا سواۓ ارحم کے ہر نفوس کو از حد حیران کر گیا تھا اس حقيقت سے۔سے۔
” حدید تھنکس ۔ تھنکس آلوٹ بیٹا ۔۔۔“
وہ اب خوشی سے رو دی تھی حدید نے انہيں ساتھ لگایا سب حیرانی و خوشی سے مسکرا رہے تھے حدید نے اطمینان بھری گہری سانس خارج کی
”بیٹا تمہاری مسکراہٹ بھی چاہیے ہمیں۔۔۔۔“
سعید صاحب نے اسے دیکھا ۔۔
”آپ سب پری کی مسکراہٹ واپس کریں میں حدید کی کرووں گا آٸی پرومس۔۔۔۔۔۔“
اس نے بابا کو دیکھا۔۔
”اور یہ ہمارا کام ہے ۔۔۔۔“
وہ مسکراۓ تھے ایک بیٹا مل گیا تھا
”ماشاءاللہ کتنا اچھا لگ رہا سب۔۔۔۔۔۔“
رومیسہ مسکراٸی تھی سب دل سے مسکراۓ۔
غزل
خوشی نہیں کہ اب کوئی میرا ہو جائے
غم نہیں کہ مجھ سے کوئی اب کھو جائے
کہنے کو تو بہت کچھ ہےدل میں چھپا رکھا
گر کوئی زخموں کا محرم ہی مل جائے
نہیں لیں گے اب اس سے خیرات میں بھی محبت
حشر بھی اب بےشک برپا ہو جائے
ہمیشہ ہی ملی ہم کو وفا کے بدلے جفا
اب کیوں کسی سے کوئی گلہ کیا جائے
کر لیا ہے سمجھوتہ یوں حالات سے عسکریٓ
جو قسمت میں ہی نہیں اسے کیوں مانگا جائے
تو کیسی لگی آج کی ایپی پڑھ کر مزہ آیا کہ نہيں ،،،،،، کون سا سین یا کون سا ڈاٸیلاگ اچھا لگا بتاٸیے گا ۔۔۔۔8 بجے کا بولا تھا جلدی دے رہی ہوں بےصبری قوم
#دل_ضد_کر_بیٹھا
#ازقلم_زویا_چوہدری
#قسط_26
،،،،،،،،،،
حدید فیملی کے ساتھ پہلے جیسا ہی ہو گیا تھا اسمارہ کی تو مانو جیسے عید ہی ہو گٸی تھی ۔۔
”بھاٸی پانی لاٶں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
حدید آفس سے آیا تو کافی نڈھال ہو گیا تھا اسمارہ کو اسے دیکھ کر شرارت سوجھی۔
”ہاں لے آٶ یار بہت پیاس لگی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
اس نے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔
”ہمممم ابھی لاٸی ۔۔“
وہ ہنستی ہوٸی چلی گٸ حدید کو اس کی ہنسی سمجھ میں نہ آٸی کیونکہ اس کی آنکهوں میں شرارت صاف دکھاٸی دے رہی تھی تبھی حدید کو یاد آیا اس کا روزہ ہے اس نے سر پر ہاتھ مارا ...
”اب آٶ تو بتاتا ہوں تمہارا ہی بھاٸی ہوں ۔۔۔۔“
اس نے دانت پیسے اس کی شرارت پر ،،،، فیملی اور پری کے سنگ رہ کر وہ بدل رہا تھا راسم کا جو دکھ اکیلے سہہ رہا تھا اب اس کو شیٸر کرنے والے بھی آ گٸے تھے سو غم کا بوجھ کم ہو رہا تھا
”بھاٸی پانی ۔۔۔۔۔“
اس نے مسکراتے ہوۓ کہا
”نہيں سادہ پانی نہيں مجھے چاۓ بنا کر دو اور چاۓ سے پہلے فریش جوس دے جاٶ ۔۔۔۔۔“
وہ دل ہی دل میں محظوظ ہو رہا تھا۔
”بھاٸی اتنی گرمی ہے ۔۔۔۔۔“
اس نے منہ بنایا ۔۔۔
”ماٸی ڈٸیر سسٹر ،،، بلکل بھی گرمی نہيں ہے ،،
اے سی نے پورا گھر ٹھنڈا بنایا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
حدید موباٸل سے نظریں ہٹا کر بولا ۔۔
”روزہ نہيں آپ کا ۔۔۔۔۔“
وہ ہار مانتے ہوۓ بولی بھلا کون پاگل روزے رکھ کر کام کرتا جن کا فائدہ بھی نہ ہو۔۔۔
”ہوں مجھے یاد تھا نوٹی کیٹ اور تم تو میرا روزہ تڑوانے کے پے در پے تھی ۔۔۔۔“
حدید نے گھورا ۔
”اوو ایسی بات نہيں ،،،، بس شرارت سوجھ گٸ،،،،،، مگر اللہ جن کو پسند کرتا ہے ان کا روزہ ٹوٹنے نہيں دے سکتا ۔۔۔۔۔باۓ دا وے آٸی لو یو برو۔۔۔۔۔“
وہ اس کے پاس بیٹھ گٸی۔۔۔
”نوٹ ہیٸر ،،،،،، “
اس نے ناک سکیڑ کر کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”آٸی ڈونٹ بیلیو ،،،،،،،،،،،،،،،، اچھا آپ نے پوچھا نہيں کہ آپ کی مسز کہاں ہیں؟؟؟؟“
اسمارہ نے اسے دیکھا۔۔۔
”سو رہی ہے گی نک چڑھی۔۔۔۔۔“
اس نے قیاس آراٸی کی۔۔۔
” نہيں وہ چلی گٸیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
وہ مسکراتے ہوۓ اس کے چہرے کا رنگ دیکھ رہی تھی جو اس کے نا موجود ہونے کا سن کر بدل گیا ”ک،،،، کہاں ۔۔۔۔۔۔ کہاں گٸ ہے وہ۔۔۔۔۔۔؟“
اس نے فوراً الجھ کر اسے دیکھا ۔۔
”وہ مجھے بھابھی نے منع کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
وہ مسکراہٹ لبوں تلے دبا کر بولی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”منع،،،،،،،،، انسانوں کی طرح بتاٶ کہاں ہے ؟ ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
اس نے دانت پیسے تھے ۔۔۔
”میں بھابھی سے غداری نہيں کر سکتی آٸم سو سوری سویٹ برو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
وہ اب پرانی جون میں لوٹ چکی تھی ۔۔۔
”وہ ایسی نہيں ہے ہر کام ڈنکے کی چوٹ پر کرتی ہے اس لٸے بتاٶ کدھر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
اس نے اسمارہ کو گھورا ۔۔
”آۓ ہاۓ بڑا یقین ہے بیوی پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
وہ شرارت سے بولی ۔۔۔
”تم بتا رہی ہو یا دوں ایک کان کے پیچھے ۔۔۔۔۔۔۔“
حدید نے اس کی حرکتوں پر دانت پِیسے۔۔۔۔
”توبہ ہیے بے صبرے بھاٸی،،،،،،،،،، رومیسہ آپی کے ساتھ شوپنگ پر گٸ ہیں رومیسہ آپی خالہ لوگوں کے لٸے اور رضی بھاٸی لوگوں کے لٸے شاپنگ کرنے گٸ تو سوچا کیوں ناں ان کو بھی ساتھ لے جایا جاۓ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،“
اس نے گہرا سانس لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”او اچھاااااااا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ وہ ایک دم ریلیکس ہوا ” بھاٸی بھابھی بہت ااچھی ہیں ناں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
اس نے ابرو اچکا کر تاٸید چاہی تھی ۔۔۔۔۔
”ہاں بہت زیادہ اچھی ہے ،،،،،،، بس تھوڑی بلکہ بہت زیادہ بدل گٸ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
اس نے آخری جملہ دل میں کہا ۔۔۔۔۔۔۔
”کتنا پیار کرتے ہیں بھابھی سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
اسمارہ نے اسے دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”اسمارہ محبت ماپنے کا کوٸی پیمانہ نہيں ہوتا یار،،،،،،،،،،،،،،،،،، یا محبت ہوتی ہے یا نہيں ہوتی ،،،، ایسا نہيں ہوتا محبت میں اور پتہ ہے جس سے محبت ہوتی ہے ناں ہمارے لٸے اس کی خوشی ہر خوشی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن میں اس بات پر یقين نہيں رکھتا کہ جب کوٸی کہتا ہے کہ میں اس دنیا میں سب سے زیادہ فلاں سے پیار کرتا ہوں ایسا پوسبل نہيں ہوتا یار ہم ہر رشتے سے پیار کرتے ہیں جیسے ماں باپ بہن بھاٸی دوست کزنز سب رشتے ہی ہمارے لٸے بہت امپورٹنٹ ہوتے ہیں ہم کسی ایک بھی رشتے کے کھونے پر کھوکھلے ہو سکتے ہیں ،،،،،،،،،، ہمارے جینے کے لٸے خوش رہنے کے لٸے ہمیں ہر رشتہ چاہیے اور سب سے بڑی بات پتہ کیا ہے کہ ہمیں رشتے نبھانے کا نہيں پتہ ہم اپنی طرف سے جو نبھانے کی کوشش کرتے ہم رشتے توڑ رہے ہوتے کبھی کبھار تم نے بھی دیکھا ہو گا کہ ہمارا کوٸی اسپشل پرسن لاٸک فرینڈ کزن اونلاٸن ہیں دونوں طرف سے پہل کا انتظار ہے مگر دونوں نہيں کریں گے اور پھر قصور وار وقت ٹھہرایا جاۓ گا ایک بات یاد رکھنا سس کہ اگر ابھی کوٸی آپ کے لٸے امپورٹنٹ ہو ناں تو کبھی بھی انا مت لینا انا دیمک کی طرح نہيں بلکہ تیزاب کی طرح جلا جاتا ہے ایک دم ،،،،،،،،، اور ہر رشتے کو ٹاٸم دینا سیکھو جس سے شکوہ ہو اس پر الزامات کی بارش نہيں کرو بلکہ بیٹھ کر معاملے کو سلجھاٶ ،،،،،، ہر معاملہ بیٹھ کر سولو ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
وہ بھاٸی ہونے کی حثیت سے بہن کو سمجھا رہا تھا
”بھاٸی سو ڈیپ ،،،،،،، لیکن اگر کبھی ہمارا کوٸی بہت اپنا ہم سے ہاتھ چھڑانا چاہتا ہو تو کیا کیا جاۓ ،،،،،،،،،،،کہتے ہیں کہ جانے والوں کو روکا نہيں کرتے تو کیا جانے دیا جاۓ دل کو مار کر ۔۔۔۔۔۔۔“
اسمارہ اس کی باتوں کو غور سے سننے کے بعد بولی
”سسٹر سب کے سوچنے کا انداز الگ ہے کبھی کبھی کوٸی جانا نہيں چاہ رہا ہوتا بلکہ وہ یہ چاہ رہا ہوتا ہے کہ ہم اسے روکیں بتاٸیں کہ وہ امپورٹنٹ ہے ہمارے لٸے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
حدید نے سمجھداری سے جواب دیا جاۓ ۔۔۔
”یو مین کہ وہ امپورٹنس جاننا چاہ رہا ہوتا ہے،،،،“
اسمارہ نے اسے دیکھتے ہوۓ کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”ایگزیکٹلی بہت اچھا پِک کیا تم نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
وہ واقعی خوش ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”لیکن بھاٸی اگر کوٸی جا رہا ہو تو ہماری انا کیسے گوراہ کرے گی کہ ہم اسے روکیں جو ہمیں چھوڑ کر جانا چاہ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
اسمارہ نے لب کاٹتے ہوۓ کہا ۔۔۔۔
”دیکھا بات وہی آ گٸ ناں یار کہ انا یہ منحوس ماری انا ہے ناں جو ،،،،،، یہ ہی ہمیں اکیلا کرتی ہے،،،،،،، ہر رشتہ پاس موجود ہو کر بھی انا اکیلا کر دیتی ہے ہمیں ،،،، کاش انا اس دنیا میں بلکہ ہمارے رشتوں میں نہ ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔“
اس نے تاسف سے گہرا سانس لیا ۔۔۔
”بھاٸی اب مجھے سمجھ آ گٸ ہے کہ یہ کیا دھرا سارا انا کا ہے ،،،،،،،،،، “ اس نے اداسی سے کہا ۔۔۔۔
”اسمارہ آج وعدہ کرو مجھ سے کہ کسی بھی رشتے میں انا نہيں لاٶ گی ،،، ٹھیک ہے ناں۔۔۔۔“
حدید نے اس کا ہاتھ تھام کر عہد لیا وہ نہيں چاہتا تھا کہ اس کی بہن بھی وہ سب جھیلے جو وہ جھیل چکا تھا وہ اسے اسی لٸے رشتوں کی نزاکت سمجھا رہا تھا کہ وہ کبھی اکیلی نہ پڑے۔۔
”بھاٸی سب باتیں بہت اعلٰی سوچ والی ہیں دل کو لگی ہیں بہت بہت شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے یہ سب کہاں سے سیکھا میرے پرنس برو نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
اس نے واقعی حیران ہوتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”اٹس پرسنل ایکسپیرینس اور اسمی تمہيں جو سمجھایا ہمیشہ یاد رکھنا آٸی نو کہ ہمیں بات نصیحت سے نہيں بلکہ ایکسپیرینس سے سمجھ آتی موسٹلی ،،،،،،،،،، یاد رکھنا ایکسپیرینس بہت پین فل ہوتا ہے پین فل کا مطلب پتہ ہے ضبط کی تکليف کی انتہا جو جھیلنا آسان نہيں ہے پرنسس۔۔۔۔۔۔۔“
اس نے جیٕسے ان بیتے لمحوں کو سوچا ۔۔۔۔
”بھاٸی میں کبھی بھی کسی بھی رشتے میں انا نہيں لاٶں گی ۔۔۔۔۔“
وہ مسکرا کر بولی ۔۔۔
”گڈ گرل اور ہاں یار اگر کوٸی بھی انسان تمہيں اچھا لگتا ہے آٸی مین لَو وغيرہ تو اسمارہ تم مجھے یا ماما بابا کو بتاٶ گی ،،،،، ہم اسے جج کریں گے اور محبت کا ثبوت نکاح ہوتا ہے کوٸی بھی مرد کبھی مجبور نہيں ہوتا جو محبت کرتا ہے وہ نکاح کرتا ہے اور وہ بھی ڈنکے کی چوٹ پر۔۔۔۔۔۔۔ میں وارن کر رہا ہوں کہ کبھی بھی مجھے پتہ چلا کہ تم کسی لڑکے کو ملی ہو تو ٹرسٹ می اچھا نہيں ہو گا۔۔۔۔۔“
آج اس کے اندر واقعی بھاٸی والی روح آٸی تھی۔۔۔
”بھیا میں آپ کو ایسی لگتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
وہ اداسی سے بولی ۔۔۔
”بچے میں نے یہ نہيں بولا کہ تم ایسی ہو میں نے بس سمجھایا ہے اونچ نیچ سے آگاہ کیا ہے ۔۔۔۔ کہ کبھی بھی دھوکا نہ کھاٶ اور اسمارہ کبھی بھی کسی کی بلیک میلنگ میں نہيں آنا کیونکہ اگر ایک بار بلیک میل ہوٸی ناں تو ساری زندگی بلیک میلنگ میں گزر جاۓ گی ۔۔۔۔۔ جو بات ہے مجھے بتاٶ ۔۔۔۔۔“
اس نے نرمی سے سمجھایا ۔۔۔
”جی بھاٸی اگر ایسا کبھی بھی ہوا میں آپ کو بتاٶں گی ۔۔۔۔۔۔ آپ کی باتوں نے میرا کونفیڈنس بڑھا دیا ہے تھینک یو سو مچ برو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
وہ واقعی دل سے خوش ہوٸی تھی ۔۔۔۔۔
”ہمممممم اور یاد رکھنا مشرقی لڑکيوں کی طرح کبھی بھی قربانی نہ دینا اپنی محبت کی ،،،،،، کیونکہ زندگی جینے کا نام ہے آنسو کا نہيں سو ۔۔“
اس نے مزید سمجھایا ۔۔۔
”جی بھاٸی ڈونٹ وری ۔۔۔۔۔“
وہ مسکراتے ہوۓ بولی تھی............
الجھی تھی جو ڈوری رشتوں کی
وہ سلجھ گٸی ہے دھیرے دھیرے ۔۔۔۔
،،،،،،،
”بہت یقین ہے ناں تمہيں اپنی بیوی پر ۔۔۔۔۔“
حرا نے ابرو اچکا کر استہزایہ کہا ۔۔
”یہ میسجز اور ویڈیو دیکھ کر بھی ۔۔۔۔۔۔۔“
وہ ہنس پڑی تھی ۔۔۔۔۔
”حدید یہ سب جھوٹ ہے قسم سے میں اور ارحم بھاٸی ویسے کھڑے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ میسجز میں تمہيں بتانے ہی والی تھی ۔۔۔۔۔۔۔“
پری روتے ہوۓ بولی تھی ۔۔۔۔ جب کہ حرا کو یقین تھا یہ آخری وار ضائع نہيں جاۓ گا ۔۔۔۔
،،،،،،،،
تو کیسی لگی آج کی ایپی ۔۔۔۔۔ آج کی ایپی لیٹ دینے کی ریزن تھی کچھ ریزن بن گٸ تھی ارجنٹ ،،،، کسی کی ڈیتھ ہو گٸ تھی پلیز نیکسٹ کا شور مت ڈالیے گا ے اور رہی بات اسمارہ اور حدید کا لمبا سین لکھنے کی تو یہی بتانا تھا کہ بہن بھاٸیوں کی بانڈنگ یونہی اسٹرونگ ہونی چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 Comments