جنات کی سچی کہانی
کھنڈر ۔۔۔۔
اس کہانی کا آغاز آج سے 20 سال پہلے ہوا ۔۔۔
جب ڈیرہ غازی خاں کے ایک قصبہ میں ،، اکبر نے ایک گھر خریدا تھا ۔۔گھر نہی بلکہ ایک کھنڈر خریدا تھا ۔۔۔ایک کچا سا کمرہ تھا جس کی چار دیواری بھی کچی تھی ۔۔۔گھر کی ایک سائیڈ قبرستان تھا ۔۔۔گھر اور قبرستان کے بیچ بس ایک 7 فٹ کی گلی تھی ۔۔۔۔
اکبر کو لوگوں نے منع بھی کیا کہ یہ گھر مت خریدو کیونکہ اس گھر میں جنات کا بسیرا ہے اور اس گھر کا پہلا مالک اسی گھر میں پر اصرار طور پر مردہ پایا گیا تھا ۔۔
علاقے کے پرانے رہایشیوں کا کہنا تھا کہ کسی زمانے میں یہ گھر قبرستان کا حصہ ہوا کرتا تھا جسے بعد میں ایک گھر بنا دیا گیا ۔۔
مگر اکبر نے کسی کی ایک نہ سنی اور وہ گھر خرید لیا ۔۔۔پرانے گھر کو تڑوا کر ایک خوبصورت گھر بنوا لیا ۔۔۔۔۔اکبر کے گھر کی بناوٹ کچھ اس انداز سے تھی کہ ایک کمرہ تیکون کی شکل کا تھا یعنی ایک بڑے کمرے کے 3 کونے تھے جبکہ باقی 2 کمرے عام کمروں کی طرح ہی تھے ۔۔۔۔
اصل میں یہی وہ تکونی کمرہ وہ جگہہ تھی جہاں پہلے بھی پرانے گھر کا صرف ایک کمرہ ہو کرتا تھا اسی کمرے میں پرانے مالک مکان کی موت بھی ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
اکبر ایک جی دار بندہ تھا ۔۔اکبر اور اس کے بیوی بچے اس گھر میں 5 سال تک رہائش پزیر رہے۔۔۔
ان کے ساتھ اس گھر میں کیا معملات پیش آے یہ آج تک کسی کو نہیں معلوم ۔۔۔ کیونکہ کبھی انہوں نے کسی ایسا بات کا ذکر نہیں کیا تھا ۔۔۔۔
اب اللّه جانے یا وہ لوگ خود جانیں کہ ۔۔۔واقع ہی وہاں کچھ نہی تھا یا وہ جان بوجھ کر کسی کو کچھ نہی بتاتے تھے ۔۔۔۔۔
وقت اچھا گزر رہا تھا کہ
ایک دن اچانک رات کو 12 بجے کے قریب اکبر کی طبیت خراب ہو گئی ۔۔۔دل کی دھڑکن بند ہونے لگی ۔۔۔۔۔۔۔موں سے جھاگ آنے لگا اور پھر اکبر اپنے ہی گھر میں وفات پا گیا ۔۔۔۔۔اس وقت اکبر کی عمر 35 یا 40 کے لگ بھگ ہوگی ۔۔۔۔۔اکبر ایک پڑھا لکھا اور بہت اچھا آدمی تھا ۔۔۔۔۔۔۔اس کی صحت بھی بہت اچھی تھی ۔۔۔۔
نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ اکبر کی موت بھی اسی تکونی کمرے میں واقع ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔جس میں پہلے مکان مالک کی موت ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔
اب تو اکبر کے خاندان والوں اور ارد گرد کے ہمسایوں کا شک یقین میں بدل گیا کہ اس گھر میں اور خاص کر اس تکونی کمرے میں کوئی بات تو غیر معمولی ضرور ہے ۔۔۔۔۔
اکبر کی وفات کے بعد اس کے بیوی بچوں نے وہ گھر چھوڑ دیا۔۔۔
گھر چھوڑنے کی وجہ یہ تھی کہ اکبر کی بیوی کی جہاں نوکری تھی وہ علاقہ اس گھر سے کچھ دور تھا ۔۔۔۔۔اسی لئے انہوں نے نیا گھر بنا لیا اور وہاں شفٹ ہو گئے ۔۔
پرانا گھر کم و بیش 15 سال تک بند رہا ۔۔۔۔
15 سال بعد اکبر کا بڑا بیٹا جس کی شادی کافی سال پہلے ہی ہو چکی تھی ۔۔۔اس کا نام علی تھا ۔۔۔ علی اور اس کے بیوی بچے اس گھر میں شفٹ ہو گئے ۔۔۔جبکہ اکبر کے باقی بہن بھائی اور ماں نیۓ گھر میں ہی رہائش پزیر رہے ۔،۔
علی اپنے شہر سے دور نوکری کرتا تھا اس لئے 2 یا 3 ماہ بعد ہی گھر آتا تھا ۔۔۔۔
علی کی بیوی کا نام سلمہ تھا ۔۔۔۔۔
بتاتا چلوں کہ جس دن 15 سال بعد پہلی مرتبہ گھر کا دروازہ کھولا گیا تو اکبر کا بیٹا علی اس وقت اپنی جاب پر تھا ۔۔۔۔
حالات ہی کچھ ایسے تھے کہ علی کی بیوی اکیلی اپنے 4 بچوں کے ساتھ اس گھر میں رهنے آئی تھی ۔۔۔۔
بچوں کی عمر 2 سال 5 سال 7 سال اور 10 سال تھی ۔۔۔
سلمہ نے ایک بات نوٹ کی کہ گھر میں عجیب سی ویرانی تھی ۔۔۔۔
لیکن اب رہنا تو یہیں تھا ۔۔۔۔چناچہ اس نے گھر کے کمروں کے تالے کھولنا شروع کیے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن جب اسی تکونی کمرے کا دروازہ کھولا تو وہاں عجیب ہی منظر تھا ۔۔۔دروازے کے بلکل سامنے کمرے کے اندر ایک بہت بڑی چھپکلی بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔اس چھپکلی کا سائز عام چھپکلی سے 4 گناہ تک بڑا تھا ۔۔۔۔۔
جی یہ چھپکلی ہی تھی یہی عام چھپکلی جو گھروں میں عام پائی جاتی ہے ۔۔۔لیکن سائز میں اتنی بڑی کہ کسی کو بھی حیرت میں ڈال دے ۔۔۔۔۔سلمہ نے ڈر کے مارے کمرے کا دروازہ واپس بند کر دیا ۔۔۔اور کچھ دیر بعد کھوکا تو وہ چھپکلی کمرے میں نہی تھی ۔۔۔۔۔
خیر جیسے کیسے سامان شفٹ کر دیا گیا ۔۔۔۔۔اور دن گزرنے لگے ۔۔۔۔مگر وہ چھپکلی بھی اکثر گھر میں ہی نظر آجایا کرتی تھی ۔۔۔پھر آہستہ آہستہ یہ ایک معمول کی بات ہوگئی ۔۔۔۔۔
سلمہ کو گھر میں کچھ غیر معمولی حرکات واضع محسوس ہونے لگی تھیں ۔۔۔۔مگر اس نے وہم سمجھ کر ٹال دیا ۔۔۔کیونکہ اب رہنا تو اسی گھر میں ہی تھا ۔۔۔۔
کچھ دن بعد جب علی جاب سے واپس آیا تو اس نے گھر کی مرمت کرائی اور کچھ دن گھر رہ کر واپس چلا گیا ۔۔۔۔
سلمہ نے بازار سے پھولوں کے بہت سارے پودے خریدے اور گھر میں لگا دئے ۔۔۔ان پودوں میں ایک پودا رات کی رانی کا تھا ۔۔۔۔اس پر رات کے وقت پھول کھلتے ہیں ۔۔۔۔آپ لوگ اس پودے کو یاد رکھنا ۔۔۔۔اس کا تعلق بھی اسی کہانی سے ہے ۔۔
اب سلمہ کو اس گھر میں رهتے ہوے ایک مہینہ ہو چکا تھا ۔۔۔اور حالت مزید خراب ہوتے جا رہے تھے ۔۔۔۔۔
اکثر اوقات گھر میں کسی کے کچھ بڑبڑانے آواز آنے لگی تھی ۔۔۔۔۔پھر آہستہ آہستہ واضع جملے سنای دینے لگے ۔۔۔۔۔۔یہ جملہ اسی تکونی کمرے سے سنای دیتے تھے ۔۔۔۔
پھر اسے کچھ حیولے اس گھر میں نظر آنے لگے اس کے بعد اسے معلوم ہوا کہ اس گھر میں جنات کی پوری فیملی آباد ہے ۔۔۔۔
جنات کی فیملی میں ٹوٹل 5 لوگ تھے ۔۔۔۔۔ایک خاوند اس کی 2 بیویاں اور 2 بچے ۔۔۔۔یہ جنات عسائی مذہب کے تھے ۔۔۔۔جن کی بڑی بیوی بہت ہی غصہ والی اور بد مزاج تھی ۔۔۔
یہ جنات سلمہ کو انسانی روپ میں نظر آتے تھے ۔۔۔۔بلکل انسان جسے تھے ۔۔۔۔
سلمہ کے مطابق یہ فیملی اس تکونی کمرے میں رہائش پزیر تھی ۔۔۔کمرے میں ایک چارپائی بھی پڑی رہتی تھی اور اس کے علاوہ بھی کچھ سمان اس کمرے میں موجود تھا ۔۔۔
سلمہ جب بھی کسی کام سے اس کمرے میں جاتی تھی ۔۔جن غصہ کرتے اور اسے ڈانٹتے کہ تم لوگ اس گھر میں کیوں آے ہو یہ ہمارا گھر ہے یہاں سے چلے جاؤ ۔۔۔۔۔
ورنہ نقصان اٹھاو گے ۔۔۔
سلمہ کو اب ان کی عادت سی ہو گئی تھی ۔۔۔۔وہ سمجھتی تھی کہ یہ جن ایسے ہی دھمکیاں دیتے رہیں گے ۔۔۔
لیکن اسے معلوم ہی نہی تھا کہ اب کچھ بہت ہی برا ہونے والا ہے ۔۔۔۔
اس گھر میں رہتے ہوئے سلمہ کو دو سے تین مہینے ہو چکے تھے ۔
ایک دن اس نے یہ بات نوٹ کی کہ اس کا چھوٹا بیٹا جس کی عمر ڈھای یا 3 سال تھی ہر وقت تکونی کمرے میں بیٹھا کھیلتا رہتا تھا ۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنے چھوٹے بیٹے کو منع کیا کہ ہے اس کمرے میں مت کھیلا کرو ۔۔۔۔۔
لیکن آپ کو معلوم ہے کہ بچے کسی کی بات نہیں سنتے بس اپنے دل کی کرتے ہیں ۔۔۔۔۔
کچھ دن بعد سلمیٰ کے چھوٹے بیٹے کی طبیعت بہت خراب رہنے لگی . وہ سمجھی شاید معمول کا بخار ہے اور ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔لیکن بہت علاج کرنے کے باوجود بھی بچہ ٹھیک نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔۔
آخرکار سلمہ نے اپنی بہن سے بات کی اور اسے سارے معاملے کے بارے میں بتا دیا ۔۔۔۔۔ ۔۔ سلمہ کی بہن ایک دیندار خاتون ہے ۔۔۔۔۔اس نے سلمہ کو کہا کہ تم ایک کام کرو اور جنوں کے ساتھ معاہدہ کر لو پھر سب کچھ ٹھیک ہو جاۓ گا ۔۔۔ اس نے سلمہ کو کہا کہ تم جنوں سے بات کرو اور انہیں کہو کہ تم ہمیں تنگ نہ کرنا ہم تمہیں تنگ نہیں کریں گے ۔۔۔
سلمیٰ نے بالکل ایسا ہی کیا اور جنون کو کہا کہ ہماری مجبوری ہے اس گھر میں رہنا مرے پاس کوئی دوسرا ٹھکانہ نہیں ہے ۔۔ ۔۔۔ اسی لیے ہم اس گھر میں رہنے پر مجبور ہیں ۔۔۔۔اگر آپ نے اس گھر میں رہنا ہے تو شوق سے رہیے ۔۔۔۔ ہم آپ کو تنگ نہیں کریں گے اور آپ ہمیں تنگ مت کیجئے گا ۔۔۔میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میں انہیں لے کر کہاں جاؤ اب ۔۔۔۔۔
آپ اس گھر میں کسی ایک کمرے میں رہ لیں ہم وہاں نہی آئیں گے اور آپ باقی گھر میں مت آنا ۔۔۔۔۔۔۔جنہوں نے سلمہ کی بات مان لی اور اسے کہا کہ ٹھیک ہے بس اس بڑے کمرے میں مت آیا کرو باقی پورا گھر تمہارا ہے جہاں تم نے رہنا ہے رہو . ۔۔اب ہم تمہیں تنگ نہیں کریں گے ۔۔۔۔۔
اسی طرح کافی دن گزر چکے تھے اور ماحول بالکل پرس کون تھا ۔۔۔سلمہ کے بیٹے کی طبیت بھی ٹھیک ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔
۔ایک دن سلمیٰ کا خاوند چھٹی پر گھر واپس آگیا ۔۔۔۔۔۔ سلمہ نے اسے پورے حالات سے آگاہ کیا اور بتایا کے بڑا کمرہ میں نے بند کر دیا ہے تم بھی وہاں مت جانا ۔۔۔ ۔۔۔۔یہ سن کر علی کو بہت غصہ آیا اور اس نے سلمہ کو ڈانٹا کہ یہ تم نے کیا کر دیا ۔۔۔۔۔اس طرح تو یہ مخلوق اس پورے گھر پر قابض ہو جائے گی پھر کیا تم پورا گھر چھوڑ کر چلی جاؤں گی ۔۔۔۔ اس نے بیوی کو کہا کہ جاؤ ابھی کمرہ کھول کر آؤ ۔۔۔اور اس کمرے میں آنا جانا رکھا کرو تاکہ یہاں جب چہل قدمی ہوگی تو وہ جنات یہ گھر چھوڑ کر چلے جائیں گے ۔۔۔۔ورنہ وہ یہاں پوری طرح ہاوی ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔
سلمہ نے شوہر کی بات مان لی اور مجبوراً کمرے کا دروازہ کھول دیا ۔۔۔۔۔سلمہ کا خاوند کچھ دن گھر رہنے کے بعد واپس چلا گیا ۔۔۔۔اس کے جانے کے بعد سلمہ کے چھوٹے بیٹے کی طبیعت مزید خراب رہے لگی ۔۔۔۔
سلمیٰ نے اس سارے واقعے سے اپنی بہن کو آگاہ کیا ۔۔۔۔۔سلمہ کی بہن نے اسے کہا کہ تم میرے پاس آجاؤ ہم اس کا روحانی علاج کراتے ہیں ۔۔۔سلمہ اپنے بچوں کو لے کر اپنی بہن کے گھر چلی گئی ۔۔۔۔۔ایک مولوی صاحب نے بچے کا علاج شروع کیا اور کہا کہ اس کا علاج چالیس دن تک جاری رہے گا ۔۔۔۔اس کے بعد انشاءاللہ بچہ ٹھیک ہو جائے گا اور جنات بھی گھر سے نکل جائیں گے ۔۔۔۔۔
سلمیٰ اپنے گھر واپس آگئی اور مولوی صاحب کا بتایا ہوا وظیفہ پڑھنا شروع کردیا ۔۔۔۔اس کے علاوہ نمازیں اور قران پاک کی تلاوت بھی شروع کر دی ۔۔۔۔۔۔
دم کیا ہوا پانی گھر میں چھڑکنے لگی ۔۔۔۔۔
جب سلمہ گھر میں قرآن پاک پڑھنا شروع کرتی تو جنات اسے منع کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ مت پڑھو ورنہ تم بہت پچھتاؤ گی
۔۔۔استغفراللہ ۔۔۔
آدھی کہانی آپ لوگوں کو۔ سنا دی ہے اور آدھی کہانی اگلی قسط میں سناوں گا
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔اس کہانی کی 2 اقساط ہیں ۔۔۔۔دوسری قسط جلد ہی لکھ کر پوسٹ کر دوں گا اور پھر کہانی ختم ۔۔۔۔۔
یہاں تک پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ کہانی جھوٹی ہے یا سچی ہے ۔۔۔۔۔اس بارے بھی کمنٹ میں ضرور بتائیں

0 Comments